تعارف
تصور کریں ایک ایسے شخص کا، جو اتنی گہرائی سے دعا مانگتا
ہو کہ اس کے مسلسل گھٹنوں کے بل دعا کرنے سے اس کے گٹنے چل گئےہوں۔ ایک ایسی ہستی
جو گھنٹوں، بلکہ کبھی کبھی دنوں تک، گھٹنوں کے بل خدا سے مناجات کرتی ہو۔ جب دوسرے
بلند آواز سے انجیل کی منادی کر رہے ہوتے، وہ خاموشی سے دعا مانگتا۔ جب رات کے
اندھیرے میں دنیا سکون کی نیند سو رہی ہوتی، وہ آنسوؤں کے ساتھ خدا کے حضور جھکتا۔
اور پھر، ایک معجزہ! ہزاروں روحیں نجات پاتیں، کلیسیاوں میں روحانی پیداری کا
آٖغاز ہوا اور پورے ہندوستان میں ایمان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ یہ سب ایک اکیلے شخص
کی وجہ سے، جس نے اپنا سر زمین پر جھکایا اور دل آسمانوں سے جوڑ دیا۔ اس کا نام
تھا جان ہائیڈ، وہ مشنری جسے "دعاکو ہائیڈ" کہا گیا۔ اس کی کہانی آپ کو
جھنجھوڑ دے گی اور دعا کے بارے میں آپ کا نظریہ ہمیشہ کے لیے بدل دے گی۔ کیا آپ
یقین کریں گے کہ ایک شخص کی گھٹنوں پر کی گئی دعا ایک پورے ملک کو ہلا سکتی ہے؟ یہ
کہانی ناممکن لگتی ہے، لیکن یہ سچ ہے۔
جان ہائیڈ کا مشن
انیسویں صدی کے اوائل میں شمالی ہندوستان کے پنجاب میں
مشنری کے طور پر آنے والے جان ہائیڈ نہ تو زوردار وعظ دینے کے لیے مشہور تھے، نہ
ہی زبردست تقریروں کے لیے۔ ان کی شہرت کی وجہ تھی ان کی دعا کی طاقت۔ وہ ہر روز
گھنٹوں خدا سے ہم کلام ہوتے، کبھی کبھی پوری رات جاگ کر۔ ان کی دعائیں اتنی شدید
تھیں کہ ان کے گھٹنوں پر نشانات پڑ گئے۔ جب دوسرے عبادات منعقد کر رہے تھے، وہ
تنہائی میں خدا کے سامنے جھکتے اور نتیجہ حیران کن تھا۔ زندگیاں بدل گئیں، چرچیز
لوگوں سے بھر گئے، اور ایک عظیم بیداری نے جنم لیا۔ جان ہائیڈ کی یہ کہانی ایک عام
انسان کے غیر معمولی ایمان کی داستان ہے، جس نے ثابت کیا کہ دعا صرف ایک رسم نہیں،
بلکہ ایک ایسی طاقت ہے جو انسانوں کے درمیان خدا کی قدرت کو لانے کا باعث بنتی ہے۔
ابلیس اور گناہ سے دکھ اٹھا رہے انسان کی تقدیر بدل دیتی ہے۔
ابتدائی زندگی
جان ہائیڈ 1865 میں امریکی ریاست الینوائے میں پیدا ہوئے۔
ایک پادری کے گھر پلنے بڑھنے والے جان کے لیے دعا اور خدا کا کلام روزمرہ کی زندگی
کا حصہ تھے۔ وہ بچپن سے ہی خاموش اور گہرے سوچ میں والے تھے، لیکن ان کا دل خدا کی
آواز سننے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ مسیحی کالج اور بائبل سکول میں تعلیم کے
دوران ان کے اندر ایک گہری خواہش جاگی کہ خدا انہیں مشنری بننے کے لیے بلا رہا ہے۔
شرمیلے مزاج اور بات چیت کی مشکلات کے باوجود، انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا اور
ہندوستان کے پنجاب کا رخ کیا، جو اس وقت روحانی طور پر تاریکی میں تھا۔
ہندوستان میں چیلنجز
پنجاب پہنچنے پر ہر چیز ان کے خلاف دکھائی دیتی تھی۔ مقامی
زبان بولنا ان کے لیے مشکل تھا۔ ان کی صحت کمزور تھی، بخار اور انفیکشنز نے انہیں
گھیر رکھا تھا، اور ان کا جسم ہندوستانی موسم برداشت کرنے سے قاصر تھا۔ جس علاقے
میں وہ خدمت کے لئے آئے تھے وہ روحانی طور پر خشک تھا۔—صرف چند ایک لوگ مسیح پر
ایمان لاتے تھے، کلیسیاوں میں سردمہری چھائی ہوئی تھی، اور یہ علاقہ گویا ایک
روحانی صحرا تھا۔ لیکن اسی کمزوری اور ناکامی کے ماحول میں جان ہائیڈ نے وہ ہتھیار
دریافت کیا جو کوئی ان سے چھین نہیں سکتا تھا: دعا۔
دعا کے لیے وقف زندگی
انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ الفاظ سے لوگوں تک نہیں پہنچ
سکتے، تو وہ خدا سے براہ راست بات کریں گے اور روح القدس کو کام کرنے دیں گے۔
جسمانی، ثقافتی اور روحانی رکاوٹوں کے باوجود، جان ہائیڈ نے ایک فیصلہ کیا جو ان
کی زندگی اور خدمت کو بدل کر رکھ دے گا: دعا ان کا بنیادی مشن ہوگی۔ ابتدا میں وہ
ایک دو گھنٹے دعا مانگتے، لیکن جلد ہی یہ وقت چار، پانچ گھنٹوں تک بڑھ گیا۔ کبھی
کبھی وہ سارا دن گھٹنوں پر خدا کے حضور جھک کر گزارتے۔ ان کی دعائیں کوئی رسمی عمل
نہ تھیں—یہ آنسوؤں سے بھری، دل کی گہرائیوں سے نکلی دعائیں تھیں، جیسے کوئی
زندگیوں کے لیے اپنی روح تک لڑا رہا ہو۔ وہ کئی دنوں تک بغیر سونے کے دعا کرتے۔ جب
دوسرے مشنری رات کو آرام کرتے، جان جاگتے، ہر روح، ہر گاؤں، ہر سخت دل کے لیے دعا
مانگتے۔ عینی شاہدین کہتے ہیں کہ ان کے دعائیہ کمرے کے پاس سے گزرنا ناممکن تھا
بغیر خدا کی موجودگی کو محسوس کیے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ پسینے اور آنسوؤں میں ڈوب
جاتے، روحانی اذیت میں کراہتے، اور خدا سے ایسی محبت اور جذبے سے بات کرتے جیسے
کوئی اپنے سب سے قریبی دوست سے کرتا ہے۔
دعاؤں کا اثر
پھر ایک انقلاب برپا ہوا۔ جیسے جیسے جان ہائیڈ دعا کی
گہرائیوں میں اترتے گئے، ایک چھوٹا سا شعلہ ایک روحانی آگ میں بدل گیا جو پنجاب
بھر میں پھیل گیا۔ مشنریوں نے انجیل میں غیر معمولی دلچسپی کی خبریں دیں۔ گاؤں اس
ایک شخص کی پرجوش دعاؤں کے اثرات محسوس کرنے لگے۔ خالی اور سرد کلیسیائیں زندگی سے
بھر گئیں۔ دعائیہ اجلاس، جو کبھی نظر انداز ہوتے تھے، اچانک لوگوں سے کھچا کھچ
بھرنے لگے۔ بڑی تعداد میں لوگ مسیح کو قبول کرنے لگے۔ وہ لوگ جو کبھی انجیل کا
مذاق اڑاتے تھے، مسیح کے سامنے سر جھکانے لگے۔ گویا پنجاب پر آسمان کھل گیا، اور
یہ سب بغیر کسی بڑی تبلیغی مہم کے—صرف ایک شخص کی گھٹنوں پر کی گئی دعاؤں کی
بدولت۔ یہ ناممکن تھا کہ کوئی اسے محض اتفاق کہے۔ اس سب کے مرکز میں جان ہائیڈ
تھے۔
عاجزی اور وراثت
جان ہائیڈ نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی۔ جب پادری وعظ کر
رہے تھے اور کلیسیائیں اپنی فصل کاٹ رہی تھیں، وہ ایک سادہ کمرے میں چھپ کر شدید
دعائیں مانگتے رہتے۔ ان کا نام خود نمائی سے نہیں، بلکہ ان کی دعاؤں کے اثر سے
پھیلا۔ یوں وہ "دعا گو ہائیڈ" کہلائے۔ لوگ بغیر وعظ سنے ان کے پاس
آتےاور کہتے کہ وہ کیسے نجات پائیں گے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ اصلی جنگ منبر پر
نہیں، بلکہ تنہائی کی دعا میں لڑی جاتی ہے، اور وہ اس جنگ میں فتح پر فتح حاصل کر
رہے تھے۔
سیالکوٹ کنونشنز
ان کی خدمت کا ایک یادگار لمحہ سیالکوٹ کنونشنز کے دوران
آیا، جہاں مشنری اور پادری سالانہ جمع ہوتے تھے۔ جب دوسرے حکمت عملی بنانے میں
مصروف ہوتے، جان تنہائی میں دعا مانگتے۔ وہ ہر واعظ، ہر اجلاس، ہر روح کے لیے
گھنٹوں دعا کرتے۔ گواہوں کے مطابق، وہ ایک دن میں سو سے زائد لوگوں کے لیے انفرادی
دعائیں مانگتے، نام لے کر، نجات اور آسمانی طاقت مانگتے۔ ان کے دعائیہ کمرے کے
قریب سے گزرنے والے ان کی آہ و بکا، آنسوؤں سے تر چہرہ، اور بغیر کھانے پینے کے
کمزور جسم دیکھتے۔ وہ سسکیوں سے لرزتے ہوئے اپنی مشہور دعا دہراتے: "اے خدا،
مجھے روحیں دے یا میں مر جاؤں!" نتیجہ؟ عبادات میں بیداری کی آگ بھڑک اٹھی۔
مایوس پادریوں میں نئی روح پھونکی گئی۔ روحانی اور جسمانی شفا ہوئی۔ مختصر وقت میں
سینکڑوں نے بپتسمہ لیا، اور کلیسیائٰیں بڑھنے اور مضبوط ہونے لگے۔ یہ تحریک نہ
موسیقی سے چلی، نہ میڈیا سے، نہ بڑی عمارتوں سے—بلکہ ایک ایسے شخص کی خفیہ دعاؤں
سے، جو یقین رکھتا تھا کہ خدا عظیم کام کر سکتا ہے۔ پنجاب کبھی پہلے جیسا نہ رہا،
اور ہندوستان کا گرجا گھر آج بھی دعا گو ہائیڈ کے اثرات کو یاد رکھتا ہے۔
عمل کی دعوت
اگر یہ کہانی آپ کے دل کو چھو گئی، تودعا گو ہائیڈ: دی
لائف سٹوری آف جان ہائیڈ اور دعا گو ہائید ضرور پڑھیں۔ اس کتب میں آپ کو مکمل
تفصیلات، خطوط اور گواہیاں ملیں گی، جو اس غیر معمولی شخص کے روحانی سفر کو بیان
کرتی ہیں۔ یہ کتاب دعا کے بارے میں آپ کے تصور کو بدل سکتی ہے۔ سوچیں، اگر ہم جان
ہائیڈ کی طرح دعا کریں—نہ فرض کے طور پر، بلکہ دل کی گہرائی سے۔ نہ مذہبی رسم کے
طور پر، بلکہ خدا کو کام کرتا ہوا دیکھنے کی تڑپ سے۔ اگر ہماری نسل اسی ہمت، تسلسل
اور ایمان کے ساتھ گھٹنوں پر بیٹھے، تو یقیناً ہمارا اردگرد بدل جائے۔ جان ہائیڈ
نے ہمیں ایک سادہ مگر گہرا سبق دیا: دعا وہ جگہ ہے جہاں بیداری جنم لیتی ہے، جہاں
دل بدلتے ہیں، اور جہاں ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی سے ثابت کیا
کہ بغیر دعا کی زندگی بے طاقت ہوتی ہے۔
چیلنج
تو یہ ہے چیلنج: وقت نکالیں۔ ہر وہ چیز بند کریں جو آپ کا
دھیان بٹاتی ہے۔ اپنے کمرے میں جائیں، دروازہ بند کریں، اور خدا سے باتیں کریں۔ گم
شدہ روحوں، اپنے خاندان، اپنی کلیسیا کے لیے دعا کریں۔ اس وقت تک دعا کریں جب تک
آسمان نہ کھل جائے۔ آپ کو نہ شہرت کی ضرورت ہے، نہ فصاحت کی، نہ طاقت کی۔ بس
گھٹنوں پر بیٹھیں اور ہمت نہ ہاریں۔
اختتام
اگر یہ پیغام آپ کے دل تک پہنچا، اگر آپ ایسی ایمان بھری
کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں، تو اس بلاگ کو سبسکرائب کریں۔ نوٹیفکیشنز آن کریں،
کیونکہ ہمارے پاس ایسی ہی اور بھی دل کو چھو لینے والی کہانیاں آپ کے منتظر ہیں۔
جان ہائیڈ تو صرف ایک آغاز ہے۔ ایمان کے دیگر ہیروز اگلی ویڈیوز میں آپ کا انتظار
کر رہے ہیں۔ خدا آپ کو برکت دے۔